قصہ بنی اسرائیل کے ایک ظالم کا
یزید رقاشی کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ظلموں میں سے
ایک ظالم اپنے گھر میں بیھٹا ہوا اپنی بیوی سے تخلیہ کر رہا تھا۔ اتنے میں دیکھا
کہ گھر میں ایک اجنبی آدمی دروازہ سے چلا آ رہا ہے۔ یہ شخص نہایت غصے میں اُس کی
طرف لیکا۔ اُس سے پو چھا کہ تو کون ہے اورگھر میں آنے کی تجھے کس نے اجازت دی۔
اس
نے کہا کہ مجھے اس گھر کے مالک نے اندرآنے کو کہا ہے اور میں وہ شخص ہوں جس کو نہ
کوئی پردہ روک سکتا ہے اور نہ بادشاہوں کے پاس جانے کے لیے مجھے اجازت کی ضرورت
ہوتی ہے نہ کسی ظالم کے دبدبہ سے ڈرتا ہوں، نہ کسی مغرور تکبر کے پاس جانے سے مجھے
کوئی چیز مانع ہوتی ہے اس کی یہ گفتگوسن کر وہ ظالم خوفزدہ ہوگیا، بدن میں کپکپی
آگئی اور اوندھے منہ گر گیا۔ اس کے بعد نہایت عاجزی سے کہنے لگا پھر تو آپ ملک
الموت ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں وہی ہوں ۔ صاحب مکان نے کہا کہ آپ مجھے اتنی مہلت دے
دیں کہ میں وصییت نامہ لکھوں۔
فرشتہ نے کہا کہ اب اس کا وقت دور چلا گیا۔
افسوس کہ تیری مدت ختم ہو چکی ہے سانس پورے ہو گئے اور تیرا وقت ختم ہوگیا۔ اب
تیرے لیے ذرا سی تاخیر کی بھی گنجائش نہیں۔ صاحب مکان نے پوچھا کہ آپ مجھے کہاں لے
جائیں گے۔ فرشتہ نے کہا تیرے اعمال جو آگے گئے ہوئے ہیں ان کے پاس ہی لے جاؤں گا
جیسے عمل کیے ہوں گے ویسا ہی ٹھکانا ملے گا، اور جس قسم کا گھر تو نے اس جہان میں
بنار کھا ہوگا وہی تجھے ملے گا اس نے کہا کہ میں نے تو نیک اعمال کچھ بھی نہیں کیے
اور نہ کوئی عمدہ گھر اپنے لیے اب تک بنا رکھا ہے۔
فرشتہ نے کہا پھر تو نطی نزاعة للشوئی کی طرف لے
جاؤں گا یہ سورہ معارج کی آیت کی طرف اشارہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بیشک وہ آگ
ایسی دہکتی ہوئی ہے جو کھال تک کھینچ لے گی اور اُس شخص کو جس نے دنیا میں حق سے،
منہ پھیرا اور بے توجہی کی وہ آگ خود ہی بلا لے گی۔ اپنی طرف کھینچ لے گی، اس کے
بعد اس فرشتہ نے اُس کی جان نکال لی ۔ گھر میں کہرام مچ گیا کوئی رو رہا تھا کوئی
چلا رہا تھا۔ یزید رقاشی کہتے ہیں کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ مردہ پر اس
وقت کیا گزر رہی ہے تو اس کے مرنے سے زیادہ آہ و بکا اس حالت پر ہونے لگے جو اُس
پر گزر رہی ہے۔