سيرت عزیر عليْهِ السَّلام کے اہم واقعات
اس باب میں حضرت عزیر علیہ السلام کی سیرت کے اہم
واقعات کا ذکر ہے، تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ فرمائیں:
seerat Uzair علیْه salam ke ahem waqeat
بخت نصر کا حملہ اور حضرت عزیر عَلَيْهِ السَّلام :
hazrat Uzair alaihi salam ke waqeat ke qurani maqamat
جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو
ان پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت
بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کر دیا اور اسے فتح کرنے کے بعد لوگوں کو تین
حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک حصے کو قتل کر دیا، ایک کو ملک شام میں ادھر
ادھر بکھیر کر آباد کر دیا اور ایک حصے کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنا لیا۔ حضرت
عزیر علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر
بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور بالکل ویران بناڈالا۔ یہی وہ پہلا
فساد اور اس کا انجام ہے جس کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کی آیت 4 میں کیا گیا ہے،
حضرت عزیر عَلَيْهِ السَّلام اور قدرت الہی
کا مشاہدہ :
کچھ دنوں بعد کسی طرح حضرت عزیر علیہ السّلام بخت نصر
کی قید سے رہا ہوئے تو آپ علیہ السلام کا بیت المقدس سے گزر ہوا، آپ کے ساتھ ایک
برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے، تمام بستی
میں
...
قصص الانبياء لابن كثير ، الفصل السادس، قصة
العزير ، ص ۷۵۸ ... صادي، البقرة، تحت الآية : ۲۵۹، ۲۲۰/۱، ۲۲۱، ملتقطاً.
پھرے لیکن کسی شخص کو وہاں نہ پایا، بستی کی عمارتیں
گری ہوئی تھیں، آپ نے تعجب سے کہا: ترجمه: اللہ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ
کرے گا؟
آنی يُحي هيذاللهُ بَعْدَ مَوْتِهَا )
اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اپنی سواری کے جانور کو
وہاں باندھ دیا اور خود آرام فرمانے لگے ، اسی حالت میں آپ کی روح قبض کرلی گئی
اور گدھا بھی مر گیا۔ یہ صبح کے وقت کا واقعہ ہے، اس سے ستر برس بعد اللہ تعالی نے
ایران کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو غلبہ دیا اور وہ اپنی فوجیں لے کر بیت
المقدس پہنچا، اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقے پر آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے
جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ دوبارہ یہاں آکر بیت المقدس اور اس کے گردو نواح میں
آباد ہو گئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ اس پورے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت
عزیر علیہ السلام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا،
جب آپ کی وفات کو سو سال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا، پہلے آنکھوں
میں جان آئی، ابھی تک تمام جسم میں جان نہ آئی تھی۔ بقیہ جسم آپ کے دیکھتے دیکھتے
زندہ کیا گیا۔ یہ واقعہ شام کے وقت غروب آفتاب کے قریب ہوا۔ اللہ تعالی نے حضرت
عزیر علیہ السلام سے فرمایا:
كُمْ لَبِثْت (2)
ترجمہ: تم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ہو ؟
عرض کی،
لبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ )
ترجمه: میں ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم وقت
ٹھہراہوں گا۔
یہ بات آپ علیہ السلام نے یہ سوچ کر کہی کہ یہ اسی دن
کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى
طَعَامِكَ وَشرابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهُ وَانْظُرُ إِلى حِمَارِكَ وَتجْعَلَكَ آيَةٌ
لِلنَّاسِ وَ الفُرُ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ تُنْشِرُ هَا ثُمَّ تَكْسُوْهَا
لَحْمًا ).... پ ٣ البقرة : ۲۵۹ . ...
ترجمه: (نہیں) بلکہ تو یہاں سوسال ٹھہرا ہے اور اپنے
کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بد بودار نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ (جس کی ہڈیاں تک سلامت
نہ رہیں) اور یہ (سب) اس لئے ( کیا گیا ہے
) تا کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادیں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کہ ہم کیسے
انہیں اٹھاتے (زندہ کرتے) ہیں پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں۔
چنانچہ آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ کھانا بالکل سلامت
ہے اور گدھا مر چکا ہے، اس کا بدن گل گیا اور اعضاء بکھر گئے ہیں ، صرف سفید ہڈیاں
چمک رہی تھیں۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے اس کے اعضاء جمع ہوئے،
اعضاء اپنی اپنی جگہ پر آئے ، ہڈیوں پر گوشت چڑھا، گوشت پر کھال آئی، بال نکلے پھر
اس میں روح پھونکی گئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا۔ جب آپ علیہ
السلام نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا تو فرمایا: أَعْلَمُ
أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) ترجمہ: میں خوب جانتا ہوں کہ
اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یعنی یقین تو پہلے ہی تھا، اب عین الیقین حاصل ہو گیا۔
(2) درس: اس واقعہ سے صاف صاف ظاہر ہوا کہ ایک ہی جگہ پر اور ایک ہی آب و ہوا میں
حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا تو مرکر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر
بکھر گئیں لیکن پھلوں، انگور کے شیرے اور خود حضرت عزیر علیہ السلام کی ذات میں
کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں
ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان میں ، ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض
مردوں کی لاشیں گل سڑ کر ختم ہو جائیں اور بعض بزرگوں کی میتیں سلامت رہ جائیں اور
ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں تو ایسا ہو سکتا ہے ، بلکہ مشاہد ہ سے ثابت ہے کہ بار
ہا ایسا ہوا ہے اور مزارات اولیاء اور قبور صالحین کے متعلق ایسے واقعات پیش آتے
رہتے ہیں اور خود حضرت عزیر علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔
یہاں یہ بات
بھی ذہن میں رہے کہ اس آیت میں جس واقعے کا بیان ہے اس کے متعلق دیگر اقوال بھی
ہیں یعنی یہ کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ اسلام کا نہیں بلکہ کسی اور نبی کا ہے۔
اپنے مکان پر تشریف آوری اور باندی کا آپ کو پہچاننا:
قصہ مختصر ، حضرت عزیر علیہ السلام اپنی اس سواری پر سوار
ہو کر اپنے محلے میں تشریف لائے اور سر اقدس اور داڑھی مبارک کے بال سفید تھے،
لیکن عمر مبارک وہی چالیس سال کی تھی، کوئی آپ کو نہ پہچانتا تھا۔ اندازے سے اپنے
نہ
....
پ . البقرة : ۳۵۹ .... خازن البقرة، تحت
الآية : ۲۰۲/۱،۲۵۹، ۲۰۳، جمل، البقرة، تحت الآية: ۲۵۹، ۳۳۵/۱، ملتقطاً.
مکان پر پہنچے، ایک ضعیف بڑھیا تھی جو پاؤں سے معذور
اور نابینا ہو گئی تھی، وہ آپ کے گھر کی باندی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا ہوا تھا،
آپ نے اس سے دریافت فرمایا: یہ عزیر کا مکان ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، لیکن عزیر
کہاں، انہیں تو غائب ہوئے سو سال گزر گئے۔ یہ کہہ کر وہ خوب روئی۔ آپ علیہ السلام
نے فرمایا: میں عزیر ہوں۔ اس نے کہا: سُبحان اللہ ! یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے سو سال موت کی حالت میں رکھ کر پھر زندہ کیا ہے۔ اس
نے کہا: حضرت عزیر علیہ السلام جو دعا کرتے وہ قبول ہوتی تھی، آپ دعا کیجئے کہ
میری آنکھیں دوبارہ دیکھنا شروع کر دیں تاکہ میں آپ کو دیکھ سکوں۔ آپ نے دعا
فرمائی تو اس عورت کی بینائی واپس آگئی۔ آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: خدا کے
حکم سے اٹھ ۔ یہ فرماتے ہی اس کے معذور پاؤں درست ہو گئے۔ اس نے آپ کو دیکھ کر پہچانا
اور کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بیشک حضرت عزیر علیہ السلام ہیں ۔ (۱)
یہ حضرت عزیر علیہ السلام کا معجزہ تھا اور اللہ تعالیٰ
اپنے نبیوں کو ایسے معجزات سے نوازتا ہے۔
حضرت عزیر علیہ السلام کی اپنے فرزند سے
ملاقات اور تورات لکھوانا:
اس کے بعد وہ باندی آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے
محلے میں لے گئی، وہاں ایک مجلس میں آپ کے فرزند تھے جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال
ہو چکی تھی اور آپ کے پوتے بھی تھے جو بوڑھے ہو چکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں بلند
آواز سے کہا: یہ حضرت عزیر علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔ اہل مجلس نے اس عورت کی
بات کو تسلیم نہ کیا۔ اس نے کہا: مجھے دیکھو، ان کی دعا سے میری حالت ٹھیک ہو گئی
ہے۔ لوگ اٹھے اور آپ کے پاس آئے، آپ کے فرزند نے کہا : میرے والد صاحب کے کندھوں
کے درمیان سیاہ بالوں سے چاند کی شکل بنی ہوئی تھی، چنانچہ کندھوں سے کپڑا ہٹا کر
دکھایا گیا تو وہ موجود تھا، نیز اس زمانہ میں تورات کا کوئی نسخہ باقی نہ رہا تھا
اور کوئی اس کا جاننے والا موجود نہ تھا۔ آپ نے تمام تورات زبانی پڑھ دی۔ ایک شخص
نے کہا: مجھے اپنے والد سے معلوم ہوا کہ بخت نصر کی ستم انگیزیوں کے بعد گر فتاری
کے زمانہ میں میرے دادا نے تورات ایک جگہ دفن کر دی تھی اس کا پتہ مجھے معلوم ہے۔
اس پتہ پر پہنچ کر تورات کا وہ دفن شدہ نسخہ نکالا گیا اور حضرت عزیر علیہ السلام
نے اپنی یاد سے جو تورات لکھائی تھی اس سے تقابل کیا گیا تو ایک حرف کا فرق نہ
تھا۔ (2)
...
خازن، البقرة، تحت الآية: ۲۰۳/۱۳۵۹، جمل،
البقرة، تحت الآية: ۲۵۹، ۳۲۵/۱، ملتقطاً.
... خازن، البقرة، تحت الآية :
۲۰۳/۱۰۲۵۹، جمل، البقرة، تحت الآية: ۲۵۹، ۳۲۵/۱، ملتقطاً
یہودیوں کے حضرت عزیر علیہ السلام سے متعلق
مشرکانہ عقیدے کا رد:
شاید یہی وجہ ہو کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے حضرت عزیر
علیہ السلام کے متعلق خدا کا بیٹا ہونے کا عقیدہ بنالیاہو کیونکہ قرآن مجید میں یہ
بات موجود ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے حضرت عزیر علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ کا
بیٹا قرار دیا تھا، اگرچہ آج کے زمانے میں یہودیوں کا کسی ایسے گروہ کی موجودگی کا
ہمیں علم نہیں۔ چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ ابْنُ اللَّهِ
وَقَالَتِ النَّصْرَى الْمَسِيحُ ابْنُ
اللهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ
يُضَاهِتُونَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا
مِنْ قَبْلُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ )
ترجمہ: اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور
عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی اپنے منہ کی کہی ہوئی بات ہے ،
یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔ اللہ انہیں مارے، کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟
باب: 4
احادیث میں حضرت عزیر عَلَيْهِ السَّلام کا تذکره
حضرت عزیر علیہ السلام کی نبوت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم
صلى الله علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نہیں جانتا ہے
که تیع لعین ہے یا نہیں اور میں نہیں جانتا کہ عزیر
(علیه السّلام ) نبی ہیں یا نہیں۔ (2) یاد رہے کہ حضور اکرم صَلَّى اللهُ عَلَیهِ
وَالِیہ وسلم کا یہ فرمان اس وقت کا ہے جب آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَالِهِ
وَسَلَّم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبع بادشاہ کے مسلمان ہونے اور حضرت عزیر علیہ
السلام کی نبوت کا علم نہیں دیا گیا تھا بعد میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو
بتادیا گیا تھا کہ تبع صاحب ایمان اور سعادت مند ہے اور حضرت عزیر علیہ السلام
منصب نبوت پر فائز تھے۔
حضرت عزیر علیہ السلام کو " ابن الله
" کہنے والے یہودیوں کا حشر:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول
الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلہ وسلم نے (شفاعت والی طویل حدیث
.... پ ۱۰، التربة : ٣٠..... ابو
داؤد، كتاب السنة، باب في التخيير بين الانبياء عليهم الصلوة والسلام ، ۲۸۸/۴،
حدیث: ۴۶۷۴
میں ارشاد فرمایا: یہودیوں کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ
تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ یہودی کہیں گے : اللہ کے بیٹے عزیر کی۔ ان سے کہا جائے
گا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بیوی بنائی ہے اور نہ کوئی بیٹا۔ پس
تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی پلا دے۔ تو
انہیں اشارے سے کہا جائے گا: تم وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ پھر انہیں جہنم کے پاس جمع
کیا جائے گا وہ جہنم گویا کہ سراب ہوگی (یعنی دکھائی دے گا کہ وہ ریت اور پانی ہے
لیکن ہو گی آگ) کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو کاٹ رہا ہو گا ، پھر وہ جہنم میں گر
جائیں گے۔ (1)