surah نمل mein choonti ka zikar hai ya چیونٹے ka ?

0

 

 

حباب بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اُٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے

 

(34) سورہ نمل میں چیونٹی کا ذکر ہے یا چیونٹے کا؟

surah نمل mein choonti ka zikar hai ya چیونٹے ka ?
surah نمل mein choonti ka zikar hai ya چیونٹے ka ?


سورہ نمل میں چیونٹی کا ذکرتو ہے لیکن یہ  معلوم نہیں کے یہ نر تھی یا مادہ، آج کی ویڈیو میں ہم آپ کو بتائیں گے یہ نر تھی یا مادہ اور ساتھ ہی حضرت امام ابو حنیفہ کے بچپن کی  علم وذہانت کے بارے میں بھی بتائیں گے واقعہ کچھ یوں ھوا کے،

حضرت قتاده بن دمامه مادر زاد نابینا تھے مگر آپ کا سینہ علوم اسلامیہ کا خزینہ تھا۔ نہایت ہی بلند پایہ عالم اور جامع العلوم علامہ تھے بالخصوص علم حدیث اور تفسیر میں تو اپنا مثل نہیں رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ کوفہ تشریف لائے تو ان کی زیارت کے لیے عوام و خواص کا اثردہام عظیم جمع ہو گیا۔ آپ نے اس عظیم الشان مجمع کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  ۔ یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو۔

 

حاضرین پر آپ کی علمی جلالت کا ایسا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور لوگ آپ کی عظمت سے اس قدر مرعوب تھے کہ سب دم بخود ساکت و خاموش بیٹھے رہے آخر جب آپ نے بار بار پکارا تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ جو ابھی کمسن تھے خود تو کمال ادب سے کچھ عرض نہ کر سکے مگر لوگوں سے کہا: آپ لوگ ان سے یہ پوچھیئے کہ وادی نمل میں جس چیونٹی کی تقریر سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنس پڑے تھے وہ چیونٹی نرتھی یا مادہ ؟

 

چنانچہ جب لوگوں نے یہ سوال کیا تو حضرت قتادہ ایسے سٹ پٹائے کہ بالکل لا جواب ہو کر خاموش ہو گئے پھر لوگوں نے حضرت امام ابو حنیفہ  سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: مادہ تھی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس چیونٹی کے لیے "وَقَالَتْ نَمْلَةٌ مؤنث کا ذکر کیا گیا ہے اگر یہ چیونٹی نر ہوتا تو وَقَالَ نَمْلَةٌ "کا صیغہ ذکر کیا گیا ہوتا ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس دلیل کو تسلیم کر لیا اور حضرت امام ابو حنیفہ  کی دانائی اور قرآن فہمی پر حیران رہ گئے اور اپنے بڑے بول پر نادم ہوئے

۔ (روح البیان ج ۶ ص ۳۳۳)

ثابت ہوا دولت علم ہو یا زرو جواہر کی دولت غرض کسی کمال و نعمت پر دوسروں کو

 

اپنے سے کمتر سمجھ کر بڑا بول ہرگز کبھی نہیں بولنا چاہیے بلکہ خداوند قدوس کے فرمان پر ایمان رکھنا چاہیے:

وَفَوْقَ كُلَّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٍ .

یعنی ہر علم والے سے بڑھ کر علم والا ہے ۔ اور فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ

: یعنی خداوند عالم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے۔ اس کو نظر میں رکھ کر یہ دھیان دینا چاہیے کہ خداوند عالم نے مجھ سے کہیں زیادہ بڑے بڑے باکمالوں کو پیدا فرمایا یہ بڑے بول کا انجام ذلت وندامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کسی نے کیا خوب کہا :

 

 

حباب بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اُٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے

 

 

200 باکمال واقعات (202تا203)

 

 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
To Top